حشر سامانیِ حالات سے ڈر لگتا ہے
جانے كیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
نہ تو افلاس كا ڈر ہے نہ فقیری سے گریز
تنگ دامانی افكار سے ڈر لگتا ہے
دستِ قاتل نظر آ جائے تو ڈرنا كیسا
ہاتھ خفیہ ہو تو پھر ہاتھ سے ڈر لگتا ہے
جسكے پردے میں سما جائے ہر ایک رنگ و جمال
ایسی تاریک سیاہ رات سے ڈر لگتا ہے
گھات غیروں نے لگائی ہو تو ڈرنا كیسا
اپنے ہاتھوں سے لگی گھات سے ڈر لگتا ہے
جان تو قرض ہے لے جائے گا جس كی ہوگی
ہار دل كی نہ ہو اس بات سے ڈر لگتا ہے
ساتھ چلتے رہیں اخلاص كا ایک بندھن ہو
عہد و پیمان كی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
وہ مسل ہی نہ دیں خوش فہمی كا نازک سایہ پھول
ان كے آوارہ خیالات سے ڈر لگتا ہے
بات سیدھی ہو تو معمول كی لگتی ہے مسعود
بات میٹھی جو ہو اس بات سے ڈر لگتا ہے