ڈھلی ہے شام توشاید اداس ہے کوئی
سمجھ رہا ہے مرے آس پاس ہے کوئی
یہاں پہ آگ اگلتی ہیں چمنیاں پگلے
سمجھ رہا ہے دھوئیں کو کپاس ہے کوئی
سنا ہے ہم ہیں کنارے چناب کے دونوں
تمہارے ملنے کی کیا پھر بھی آس ہے کوئی
حضور یہ بھی ضروری نہیں کہ پوری ہو
لبوں پہ اپنے اگر التماس ہے کوئی
تم آکے شہر خموشاں میں پھول ڈھونڈو گے
ہماری قبر پہ خستہ سی گھا س ہے کوئی
ہماری خشک نگاہی پہ کون تڑپا ہے
ہمارے گاؤں میں چہرہ شناس ہے کوئی
تمہاری پارو تو کب کی مری ہے جانتی ہوں
ہمارے من میں مگر دیوداس ہے کوئی
ملے ہو تم بھی گلی میں تو اتفاق ہے یہ
دل حذیں کو مسرت تو راس ہے کوئی
بغیر تیرے گزارے گی زندگی سلمیٰ
حضور آپ کا وہم و قیاس ہے کوئی