کاش میں اڑتا بادل ہوتا
دور فلک پہ تنہا سا
آوارہ سا اڑتا رہتا
صحرا، دشت اور دریا پر
گرجتا اور برستا رہتا
رات میں چاند کو اوٹ میں لاکر
دنیا والوں سے چھپا کر
چپکے چپکے باتیں کرتا
جیسے کہ کوئی پاگل ہوتا
کاش میں اڑتا بادل ہوتا
کاش میں کوئی پرندہ ہوتا
شام سویرےاڑتا رہتا
اڑنے سے جب تھک جاتا
خوب آرام سے سو جاتا
تنکے چن چن کر میں لاتا
اپنا آشیاں بناتا
اس کی حفاظت کرتا رہتا
جب تلک میں زندہ ہوتا
کاش میں کوئی پرندہ ہوتا
کاش میں کوئی پتا ہوتا
کسی بڑے شجر کا ہوتا
باد بہاری جب بھی آتی
جھومتا، گاتا لہراتا میں
جلتی دھوپ میں کوئی مسافر
جب بھی میری اوٹ میں آتا
خود تو جلتا دھوپ میں لیکن
اس کو سایہ دیتا میں
رت خزاں کی جب بھی آتی
نیچے زمیں پر گر جاتا میں
پاؤں کے نیچے کچلا جاتا
کوئی نہ اتا پتا ہوتا
کاش میں کوئی پتا ہوتا
کاش میں کوئی تتلی ہوتا
پھول سے پھول پہ اڑتا رہتا
دوڑتے بچے میرے پیچھے
میں آگے وہ پیچھے پیچھے
آخر کار پکڑ لیتے وہ
ہاتھوں میں جکڑ لیتے وہ
چھڑ کے رنگ ان کے ہاتھوں پہ
یکدم سے میں بھاگ نکلتا
پھر سے میرے پیچھے آتے
لیکن ان کے ہاتھ نہ آتا
پھولوں میں، میں گم ہو جاتا
جیسے شراراہ بجلی ہوتا
کاش میں کوئی تتلی ہوتا
کاش میں ننھا تارا ہوتا
اندھیری رات میں دور افق پر
جگمگ جگمگ کرتا رہتا
جب بھی کوئی گمنام مسافر
منزل سے اپنی بھٹکتا
سیدھی راہ اس کو دکھا کر
رہبر میں اس کا بن جاتا
ساری دنیا سو جاتی جب
میں اس سے باتیں کرتا رہتا
کچھ اپنی کہتا، اسکی سنتا
ساری رات میں یوں بتاتا
رات گزرتی صبح آتی
دور افق میں گم ہو جاتا
سارے موسم میرے ہوتے
گرمی ہو کہ جاڑا ہوتا
کاش میں ننھا تارا ہوتا