کاش میں تیرے گھر کا راستہ ہوتا
تو جب بھی طویل مسافت سے تھکی ہاری
مجھ تک پہنچنے کی بے تاب خواہش کرتی
مجھے دیکھ کر تو بہت خوش ہوتی
میں بھی اپنی چاہت پر ناز کرتا
ہر صبح تیری پائل کی آواز سنتا
پھر کسی حسن کی وادی میں کھو جاتا
کبھی چاندنی رات میں تمہاری خاطر جاگتا
کبھی تمہاری زلفوں کی چھاؤں تلے سو جاتا
مجھے میسر ہوتی تمہارے پیروں کی نرمی
کبھی سرد رت میں محسوس کرتا میں
تمہاری سانسوں کی خوشبودار شیریں گرمی
مجھ سے گلے ملتا تمہارا معصوم سا عکس
کبھی مجھے خوشی کے تہوار پہ سجایا جاتا
میں اپنے مقدر پہ جھومتا تو کبھی کرتا رقص
تو مجھے اپنی نظموں٬ غزلوں کا عنوان بناتی
زندگی کا ہر سفر تو مجھ پہ ختم کرتی
یونہی قربتوں میں پرسکوں زندگی گزرتی
کتنا اچھا ہمارے درمیاں واسطہ ہوتا
کاش میں تیرے گھر کا راستہ ہوتا