وہ کاش خود کو سنوارتے بھی
وہ کاش مجھ کو پکارتے بھی
سفر کروں گا میں اب اکیلا
الگ ہوئے اب یہ راستے بھی
خبر انہیں تھی کہ ہم لٹیں گے
وہ جانتے تھے تو روکتے بھی
ابھی تو ہیں زخم سارے تازہ
کبھی تو تم آکے دیکھتے بھی
قریب تھا اور کون تیرے
کبھی ذرا تم یہ سوچتے بھی
چلے ہو تم جن بھی راستوں پر
وہاں ہی تھے میرے قافلے بھی
تھے آنکھ میں کتنے آنسو اس دن
دیئے تھے کچھ ہم نے واسطے بھی