کاغذوں میں جو ابھی میری صدا زندہ ہے
مر گیا ہوں میں مگر فن تو مرا زندہ ہے
انس کے سامنے جھکنا نہیں آتا مجھ کو
میں ہوں مزدور صدا میری انا زندہ ہے
تب تلک مجھ کو کوئی آنچ نہیں آ سکتی
جب تلک ساتھ مرے ماں کی دعا زندہ ہے
مجھے رہنا ہے ابھی ہجر کی زد میں کچھ دن
کہ ابھی دل میں مرے پیار ترا زندہ ہے
میں نے صدیوں کی مسافت سے یہی سیکھا ہے
مرتا انسان ہے کردار سدا زندہ ہے
جب تلک جان گنواتے رہے مجھ سے عشاق
تب تلک شہرِ محبت میں وفا زندہ ہے
جس نے بھی جان محبت میں گنوائی باقرؔ
مر کے بھی لوگوں کے ذہنوں میں رہا زندہ ہے