اتنا کالا دھن ہے کہ سنبھال نہیں سکتا
اسے بینک میں بھی ڈال نہیں سکتا
ہر ماہ جھوٹے بہانوں کا سہارہ لے کر
زیادہ دیر ٹیکس والوں کو ٹال نہیں سکتا
پہلے ہی کتنےغیر قانونی کاموں میں ملوث ہے
اب مزید کوئی اور شوق پال نہیں سکتا
اس کے سر پہ دولت کا بھوت طاری ہے
اتنا دھن ہے کہ اسے سنبھال نہیں سکتا
لکشمی آئی تو نیند ہوئی پرائی
یہ مصیبت کسی اور کے سر ڈال نہیں سکتا