چھوٹی چھوٹی باتوں پہ
اب رونا دھو نا چھوڑ دیا ہے
جن باتوں پہ دل جلتا تھا
ان پہ کڑھنا چھوڑ دیا ہے
جب سے وہ ڈر پوک سی لڑکی
بنی بہادر تھوڑی سی تو
لوگوں نے بھی اب تو اس پہ
فقرے کسنا چھوڑدیا ہے
کل تک تھی جو شوخ اور چنچل،
سہمی سہمی رہتی ہے اب
نہ جانے اب کیوں پاگل نے
ہنسناکھیلنا چھوڑدیا ہے
ماں نے جانے کون سی بات پہ
ڈر کے اسے گھر روک لیا ہے
ماں کے کہنے پر اب اس نے
کالج جانا چھوڑ دیا ہے
سانپوں سے زہریلا اب تو
آج کا یہ انسان ہوا ہے
انسانوں سے ڈر کے اب تو
سانپ نے ڈسنا چھوڑدیا ہے