کب تک شہر ظلمات میں رہ کر جیوں
کیوں نہ خود کو آزاد کر کے جیوں
مٹا ڈالوں سب بتوں کے نشان
کیوں نہ بت شکن بن کر جیوں
ہوتے ہیں شب و روز انسانیت پہ ستم
کیوں نہ چارہ گر بن کر جیوں
روند ڈالوں ظلم کے ایوانوں کو
کیوں نہ ملت کا مجاہد بن کر جیوں
سیاد کو ڈر ہے اب مٹ جانے کا
کیوں نہ پنجرے سے نکل کر جیوں