نہ میں خاص ہوں نہ ہی عام ہوں
نہ بادہ نو نہ ناصِحٰہ کا کلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
نہ نجیب نہ ہی غریب ہوں
نہ سلیم نہ ہی کلیم ہوں
نہ ہی رند ہوں نہ پارسہ
نہ ہی کوئی تشنہ کام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی میکدہ کبھی آستاں
کبھی بےقرار کبھی شادماں
نہ ہی وحشتوں کا اسیر ہوں
نہ ہی زندگی کا غلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی بے یقیں کبھی دیدہ ور
کبھی اِسکا در کبھی اُسکا در
کبھی نِکہتوں کا پیام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی ہنس د ئیے کبھی رُو د ئیے
کبھی چُپ رہے دیکھا کئے
کبھی سحر ہوں تو کبھی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی جگنوؤں کی لپک جھپک
کبھی آہو جیسے سُبک سُبک
کبھی کہکشاؤں کی چمک دَمک
کبھی سُرمئی سی کوئی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی شاعری کبھی فلسفہ
کبھی جلوتوں میں واعظ نُماء
کبھی خلوتوں میں بہک گیا
سا خیال نا تمام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا