کبھی تدبیر سے کام لینا کبھی تقدیر سے ہار آئے
کبھی پھولوں میں بس گئے ہم کبھی حصے میں خار آئے
کیا تماشا بقائے دنیا کیا اس کا شمار کرنا
کبھی دریا برد ہوئے ہم کبھی ساحل کے پار آئے
بیان ہو چکا یہ محفل روز و شب کا منظر
کبھی صدیوں میں گم گئے ہم کبھی صدیاں سنوار آئے
کیا اپنا حساب کرنا خود بے مہر ہو چکے ہم
کبھی اپنے گماں میں تھے ہم کبھی اس کے حصار آئے
اس کی چمک میں ایسی کشش تھی سمیعہ
کبھی تو در دیوار تھے ہم کبھی سایہ دیوار آئے