کبھی تدبیر سے کام لینا کبھی تقدیر سے ہار آئے

Poet: Samia Bashir By: Samia Bashir, samundri

کبھی تدبیر سے کام لینا کبھی تقدیر سے ہار آئے
کبھی پھولوں میں بس گئے ہم کبھی حصے میں خار آئے

کیا تماشا بقائے دنیا کیا اس کا شمار کرنا
کبھی دریا برد ہوئے ہم کبھی ساحل کے پار آئے

بیان ہو چکا یہ محفل روز و شب کا منظر
کبھی صدیوں میں گم گئے ہم کبھی صدیاں سنوار آئے

کیا اپنا حساب کرنا خود بے مہر ہو چکے ہم
کبھی اپنے گماں میں تھے ہم کبھی اس کے حصار آئے

اس کی چمک میں ایسی کشش تھی سمیعہ
کبھی تو در دیوار تھے ہم کبھی سایہ دیوار آئے

Rate it:
Views: 461
28 Mar, 2013