کبھی تُم لوٹ کے آؤ
مجھے بس اتنا سمجھاؤ
کہاں سے سیکھ لی تُم نے
ادا مجھ کو بھُلانے کی
تُمہیں مُجھ سے شِکوا تھا
یا ں کویٔ بھی شکایت تھی
زحمت تو زرا سی تھی
نہ کی کوشِش بتانے کی
بھلا یوں چھوڑ کے اپنا
کویٔ اپنوں کو جاتا ہے
مسلسل دُکھ کی بارش میں
جیون بھر رُلاتا ہے
ابھی تو ریت گیلی ہے
ابھی سب نقش باقی ہیں
گٔیے قدموں پہ لوٹ آؤ
مجھے بس اتنا سمجھاؤ
کہاں سے سیکھ لی تُم نے
ادا مجھ کو بھُلانے کی