کبھی جب ہاتھ میں غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
تو پھر ہم شاعری کے علم کو بھی جان لیتے ہیں
سبھی کچھ دے دیا لیکن تسلی پھر نہیں ہوتی
کبھی دل لیتے ہیں میرا کبھی وہ جان لیتے ہیں
میں کیسے مان لوں ان کو کہ وہ انسان ہوتے ہیں
کسی کے کہنے سے جو کسی کی بھی جان لیتے ہیں
کہانی جب کبھی ہم اپنی بربادی کی لکھتے ہیں
بتائیں ہم تجھے کے ہم ترا عنوان لیتے ہیں
کدورت دل میں جو رکھتے ہیں وہ برباد ہوتے ہیں
پیار ان کو نہیں ملتا وہ دنیا چھان لیتے ہیں
سرِ محفل جو آکر ہاتھ میرا تھامتے ہیں وہ
مرے دل میں پھر انگڑائی کئی ارمان لیتے ہیں
وفا کے نام سے واقف نہیں تھے کل تلک جو بھی
وفا کو تولنے کی خاطر اب میزان لیتے ہیں
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں انہیں ہم جان لیتے ہیں
بڑوں کی بات سن کر وہ ادب سے مان لیتے ہیں
یوں خسرو، داغ، اقبال اور جگر سب یاد آتے ہیں
کبھی جب ہاتھ میں غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
ضرورت ہی کیا ہے ہم سے اب یوں منہ چھپانے کی
ترے چہرے کو ہم لاکھوں میں بھی پہچان لیتے ہیں
ذرا سی نیند کی خاطر ترستی ہیں کیوں آنکھیں
ہجر کے رت جگے اب کیوں ہماری جان لیتے ہیں
بہت سے لوگ ایسے ہیں کسی سے کچھ نہیں کہتے
بہت خودار ہوتے ہیں نہ وہ احسان لیتے ہیں
پرندے بھی نہیں آتے یہاں وہ جانتے ہیں کے
یہاں تو جان انسانوں کی ہی انسان لیتے ہیں
جہاں پر قتل ہوتے ہوں کوئی روکے نہیں ان کو
وہاں معصوموں پر بھی وہ نشانہ تان لیتے ہیں