کبھی خیال تو کبھی خواب میں ڈوب گیا
میں تھا وہ مسافر جو دریا کی خاک میں ڈوب گیا
کھڑا رہا تماشائی بنا منتظر تھا میرے آنے کا جو
خواہیش ہاتھ ملانے کی قبل ساحل کے میں ڈوب گیا
برگشت ہوا وہ ساحل سے کہکے لگاتا یہ کہانی تمام شد
میرا عشق میرا جنون پھر اسی ملال میں ڈوب گیا
عمر بھر کا تھا سفر میرا تھی مَرگ منزل میری
عمر گئی رہیگاگٸ میری عشقِ زن میں ڈوب گیا
اصلاحِ عزیزم کہ اب سنبھل جاٶ بے فائدہ ہے یہ ذد
جیوں کے مر جاٶں میں اسی کَشمکَش میں ڈوب گیا
مجھے عشق تھا ذات سے اسکی اسے خبر تھی کہ نہ تھی اسے
یہ اندیشهِ فِکر تھا نفیس میں اسی گمان میں ڈوب گیا