کبھی داستان ہستی یہ تمام تک نہ پہنچے
نہ فنا سے آشنا ہو تو دوام تک نہ پہنچے
تو پلا مجھے نظر سے کہ یہ جام تک نہ پہنچے
کہیں بادۂ محبت سر عام تک نہ پہنچے
تو ستم کی قینچیوں سے پر آرزو جو کاٹے
کوئی طائر تخیل ترے بام تک نہ پہنچے
مرا وقت واپسی ہے تو نہ آ مرے سرہانے
کہ جفا کی کوئی تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
جو صنم کدے میں جلوہ ترا دیکھ لے برہمن
ترا نام چھوڑ کر وہ کبھی رام تک نہ پہنچے
تری ایک یاد رنگیں مری زیست کا سہارا
جو وہ صبح کو نہ آئے تو یہ شام تک نہ پہنچے
مرا آخری تھا سجدہ کہ نفس نے ساتھ چھوڑا
ترے در پہ سر جھکایا تو قیام تک نہ پہنچے
مرا کاروان ہستی مرے صبر ہی نے لوٹا
کبھی آہ بھی جو کھینچی ترے نام تک نہ پہونچے
غم عشق گر نہ ہو تو نہ ہو دل اسیر گیسو
کہ نہ ہو جو دانہ طائر کبھی دام تک نہ پہنچے
میں جھکا ہوں بندگی کو تو وہ رخ پھرا رہے ہیں
کہ سلام رفتہ رفتہ یہ پیام تک نہ پہنچے
جو نقاب رخ الٹ کر کبھی سامنے بھی آیا
جو چڑھائے تیوروں کو کہ سلام تک نہ پہنچے
جو پلا دے مسکرا کر تو جھکی جھکی نظر سے
کوئی ہاتھ میکدے میں کبھی جام تک نہ پہنچے