کبھی سوچتے تو تھے کہ کسی ستم میں اتر گئے
پھر وہ معمول خیال جیسے مجسم میں اتر گئے
نہ شفقت کی چھاؤں نے ٹھہرایا ہم ہی کو
نہ ہی شوخ کسی ہوا کے ردم میں اتر گئے
مجھے ملتے بھی تھے تو مانوس سب اپنے
حسرت کے بھی نہ کہیں عدم میں اتر گئے
ہاں اک دنیا تھی یا وہ فریب تھا بس
جو بھی آغوش ملا اسی جسم میں اتر گئے
کہاں کوئی مجھے تب رنجش بھی رلاتی تھی
اگر تھوڑے بہکے بھی تو پھر قدم میں اتر گئے
میرے قریب تو سب سوچیں غافل تھی پھر
سبھی حشر سنتوش جیسے خَدم میں اتر گئے