یہ کس مقام پر اس نے گلہ کیا مجھ سے
طلب کیا ہے وفاؤں کا پھر صلہ مجھ سے
یہ واقعہ ہے کہ مجھ کو نہ اسکی حاجت تھی
وہ اپنی غرض سے آکر یہاں ملا مجھ سے
نہ میں حکیم و معالج نہ پیر و سنیاسی
خدا کے حکم سے تجھ کو ملی شفاء مجھ سے
یہ جاں بہ لب تھی سیاست جمود طاری تھا
کہ اس نے پائی ہے پھر سے یہاں جلاء مجھ سے
تباہ کر کے بھی دل اسکا مطمئین نہ ہوا
مگر وہ لے نہ سکا پھر بھی بدعا مجھ سے
کبھی مدینے کی گلیوں کا نور دیکھا ہے
سوال کرتی ہے اکثر یہ صباء مجھ سے
سبھی غرور و تکبر ہر اک ریاء کاری
کرم سے اسکے بالاخر ہوئیں فناء مجھ سے
مجھے قبول ہے مرنا نبی کے قدموں میں
یہ ہے جواب جو پوچھی میری رضاء مجھ سے
حسین آپکے قدموں کی دھول نے بخشی
کہ چھین لی تھی یزیدوں نے جو بقاء مجھ سے
پنپ سکا نہ پنپ پائے گا یہاں کوئی
کرنی ہے جس نے بھی اشہر کبھی دغاء مجھ سے