کبھی نگاہ میں گلشن کبھی ہیں ویرانے
کہاں کہاں جنوں بھٹکائے گا خدا جانے
حقیقتوں سے گذرنا تو کوئی کھیل نہیں
یہاں تو اہل خرد ہورہے ہیں دیوانے
ہمارے دم سے ہے آباد میکدہ ساقی
ہمارے بعد نہ چھلکیں گے پھر یہ پیمانے
ہر اک نگاہ نثارِ جنون عشق ہوئی
کچھ اس ادا سے سرِ حشر آئے دیوانے
ہر اک موڑ پہ گزرا ہوں اس کے ساتھ مگر
یہ اور بات کہ اب وہ نہ مجھ کو پہچانے
انھیں تو اپنی نگاہوں سے گل کھلانے تھے
ہمارے دل پہ جو گذری اسے خدا جانے
ابھی تو گردش دوراں کی مجھ سے ذکر نہ کر
کھنک رہے ہیں ابھی میکدے میں پیمانے
ہمیں سے انجمن ناز میں ہے زیبائش
ہمارے دل سے ہی روشن ہیں آئنہ خانے
بُھلا سکیں گے نہ اختر جہاں کے لوگ ہمیں
ہمارے بعد کہیں گے ہمارے افسانے