کبھی یک جا کبھی میں جا بہ جا ہُوں
کہاں معلوم ہے مجھ کو میں کیا ہُوں
درُونِ دل کئی دریا ہیں مجھ میں
بظاہر تو فقط میں بُلبُلا پُوں
ہمیشہ تشنگی میں جان دی ہے
میں اپنی ذات ہی میں کربلا ہُوں
مِرے رَہرو کہیں پیچھے کھڑے ہیں
جو آگے بڑھ گیا وہ قافلہ ہُوں
جسے طے کر نہ پائے زندگی بھی
زمین و آسماں کا فاصلہ ہُوں
ردیفِ مستقل ہُوں میں غزل کی
میں کیوں بدلُوں گی کیا میں قافیہ ہُوں
ملائک سے نہ پھر تشبیہ دینا
میں مسجودِ ملائک ہُوں وریٰ ہُوں
کیا ہے منکشف یزداں نے عاشی
میں سب میں ہُوں مگر سب سے جُدا ہُوں