Add Poetry

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں ، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بےچین رہتی ہیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ بہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
 

Rate it:
Views: 507
06 Dec, 2013
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets