کتنی خوش فہمی ہے وہ مجھے بلانے آئے گا
وہ میرا دوست ہے مجھ کو منانے آئے گا
بھول جاوں گا میں سارے غم حیات کے
میرے زخموں پر جب وہ مرہم لگانے آئے گا
میں اسے اپنی بیتابیوں کے سناوں گا قصے
جب وہ سبب اپنی اداسیوں کے بتانے آئے گا
ٹوٹ چکا آئینہ دل خود کو سنبھالنے کی کوشش میں
ان کرچیوں کو جانے کب وہ اٹھانے آئے گا
شاید یہ حسرت ہی رہے میرے دل میں واجد
کہ پرانی رنجشوں کو کبھی وہ بھلانے آئے گا