دامان حیا کیسے تار تار ہو گئے
جابر جہاں میں جب سے تاجدار ہوگئے
اپنوں سے گلہ غیر سے رسم وفاداری
کیا خوب میرے شہر کے اطوار ہوگئے
غیروں پہ تکیہ کرتے رہے ساری زندگی
پھر یوں ہوا کہ اپنا اعتبار کھو گئے
کوئی بھلا مانس ملے تو حال دل کہیں
فی الوقت ہم تو خود سے بیزار ہو گئے
کتنے چراغ گل کئے نفرت کی دھول نے
کتنے ہی پیارے اپنا گھر بار کھو گئے
عظمیٰ ہمارے دل کی صدا دل میں رہ گئی
چپ ہو گئے بالآخر لاچار ہوگئے