کرم کہ جاں کی حرارت رہے رہے نہ رہے
مزید صبر کی طاقت رہے رہے نہ رہے
مرے خدا مری سوچوں کو نُور سے بھر دے
بھروسہ کیا ہے بصارت رہے رہے نہ رہے
اساسِ جذبہ ء احساس تُو سلامت رہ !
یہ تاج و تخت سلامت رہے رہے نہ رہے
ہمیشہ پاس رہے بس ضمیر کی دولت
یہ سِیم و زر کی امارت رہے رہے نہ رہے
شبِ فراق میں اتروں گی شمسِ وصل بدست
یہ آب و گِل کی عمارت رہے رہے نہ رہے
میں آسمانِ جنوں پر قدم رکھوں عاشی
شعور و فہم و فراست رہے رہے نہ رہے