ترس گو میری مصیبت پہ کھا رہا ہو گا
مگر وہ میری ہنسی یوں اڑا رہا ہو گا
مری غریبی کا یوں بھی اڑائے گا وہ مذاق
فضول چیزوں پہ دولت لٹا رہا ہو گا
مرے خلوص کا مجھ کو صلہ ملے گا یہی
ہر ایک بات پہ مجھ کو ستا رہا ہو گا
کرو گے جتنی بھی عزت کسی خبیث کی تم
نظر سے اتنا ہی تم کو گرا رہا ہو گا
جسے دلاؤ گے تم زیست میں مقام کوئی
وہی نشان تمھارا مٹا رہا ہو گا
رہو گے جس کے اندھیروں میں روشنی بن کے
وہی چراغ تمھارا بجھا رہا ہو گا
کہا تو سچ ہے مگر پڑھنے والوں کو زاہد
کلام میرا یہ شاید نہ بھا رہا ہو گا