پیڑ سے اب ایک تنکا ہو گئے
کل کے ارفع آج ادنیٰ ہو گئے
اپنی ہستی پر کوئی نازاں ہو کیوں
ابر آخر موج دریا ہو گئے
مفلسی میں ہیں کہاں عشرت کے یار
رونق محفل تھے عنقا ہو گئے
اڑ چکا ہے رنگ الفت شہر سے
لوگ کل تھے کیا مگر کیا ہو گئے
کم ہی ملتے ہیں کسی سے ، جب سے ہم
اس زمانے سے شناسا ہو گئے
اک ستم گر ہی کہا ، کیا جھوٹ ہے ؟
آپ برہم ہم پہ بے جا ہو گئے
جب مسیحا نہ ملا کوئی انھیں
زخم خود اپنا مداوا ہو گئے
جب سے چاہا ہے تجھے اے دوست ہم
کس قدر دنیا میں تنہا ہو گئے