کسی گاوں میں رہتا تھا اک کسان
قریب المرگ تھا بیچارہ بڑا پریشان
کہتا تھا الله نے مجھے دیے ہیں سات بیٹے
مگر وہ آپس میں ہر وقت ہیں لڑتے
میں ان کی نااتفاقی کا علاج بھلا کیسے کروں
ٹھیک بگڑے ہوئے مزاج بھلا کیسے کروں
آگئی اک دن اس کے ذہن میں یہ ترکیب
کہا سات بیٹوں کو بلا کے اپنے قریب
امتحان مجھے آج تمہارا مقصود ہے
وقت اگرچہ میرے پاس ذرا محدود ہے
تم سب ایک ایک کر کے میرے سامنے آو
اور یہ پتلی سی ٹہنی ذرا توڑ کے دکھاؤ
کام مشکل نہ تھا سب نے فوراً دیا کر
اور ڈالی بوڑھے باپ پر فاتحانہ نظر
میں خوش ہوں کہ تم بڑے شہ زور ہو
مگر میری نظر میں بڑے کم زور ہو
بوڑھے نے سب ٹہنیوں کو ملا کر اکٹھا کیا
اور بیٹوں کے ہاتھ توڑنے کو وہ گٹھا دیا
باری باری سب نے زور اپنا آزمایا
ٹہنیوں کا گٹھا کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آیا
سنو میرے بیٹو بات میری غور سے سنو
مرضی کے مالک ہو تم جو چاہے کرو
اگر تم ٹہنیوں کی طرح جدا جدا رہو گے
کسی دشمن کے ہاتھوں سب کٹ مرو گے
تمہارے سامنے اس گٹھے کی بھی مثال ہے
افراد قوم بن جائیں تو اس کا مٹنا محال ہے
بات باپ کی بیٹوں کے دل میں گھر کر گئی
قریب المرگ بوڑھے کی تجربہ کاری وار کر گئی
اب سارے محبت و اتفاق سے رہتے تھے
کوئی بے اتفاق ملتا تو اس سے کہتے تھے
فرد بنے تو تباہی کو آخر پہنچ جاؤ گے
قوم بن کر عظمت جہاں کی پاؤ گے
قوم میری بھی عثمان افراد ہے کیسے انہیں بتاؤں
جو دل پہ انکی دستک دے بات ایسی کہاں سے لاؤں