شدت حبس میں آخر کدھر جائیں
سب سے بہتر ہے یہیں ٹھہر جائیں
دل کی تختی کو اشکوں سے دھویا ہے آج
شاید ایسے ہی زنگ اتر جائیں
سر سے اترے شوق دربدری کا تو
کسی شام ہم بھی گھر جائیں
ان لوگوں کو نیند بھلا خاک آئے
جن کی آنکھوں میں حادثے ٹھہر جائیں
ملنا جلنا خود بخود چھوٹ جاتا ہے
مصروفیتیں جب حد سے بڑھ جائیں
عثمان یہ لوگ وفاؤں کے قابل نہیں
تیرے ساتھ نہ کوئی ہاتھ کر جائیں