کسی مرتد نے پھر کلمہ پڑھا ہے
زمانہ کشمکش میں مبتلا ہے
جسے سمجھتے تھے اچھا بھلا
وہی کوڑی میں کے بدلے بک گیا
ضمیر انسان کا مردہ ہوگیا ہے
تعصب اس قدر سر پر چڑھاہے
مرے چہرے پہ جانے کیا لکھا ہے
وہ مجھکو احتراماً دیکھتا ہے
ابھی بھی دکشنہ لیتا ہےکوئی
انگوٹھا تھا گلا اب کاٹتا ہے
ہوا سرحد پہ کیسی چل رہی ہے
کوئی کمبخت طعنے دے رہا ہے
ذرا سی چھوٹ پاکر اب مجاہد
وہ کالادھن بھی اجلا کر رہا ہے