کوئی پیارا امیدوں کا سہارا دے گیا ہے
میری کشتی کو ساحل کا اشارہ دے گیا ہے
میری ناؤ بھنور میں ڈوبنے کو تھی لیکن
سمندر میں بھنور میں وہ کنارہ دے گیا ہے
مایوس فضاؤں میں اداسی کے سفرمیں
کوئی رہبر امیدوں کا سہار دے گیا ہے
ہم تو سمجھے تھے کے ساعت قضا کی آپہنچی
مسیحا کوئی پھر جیون دوبارہ دے گیا ہے
خشک پتے کی شبیہ زرد سرد چہرے کو
چمک شبنم سی پھولوں سا نظارہ دے گیا ہے