کل میں فنا ہو کر حیات پائے عشق ہے
تکمیلِ خلق ذات انتہائے عشق ہے
خیراتِ عشق حق کا خوگر ہے جو یہاں
ہے بادشاہِ عشق جو گدائے عشق ہے
خواب کی بیداریاں، بیداری کا خمار
خوب تر سے خوب یہ ادائے عشق ہے
صدائے کن فکاں، تخلیق انس و جاں
تخلیقِ دو جہان معجزائے عشق ہے
راہِ وفا کے نام لیوا یوں تو بہت ہیں
حیات جاودان فقط پائے عشق ہے
وہ نفس کے ہاتھوں کبھی مغلوب نہ ہوا
باقی ہے اسکا عشق جو فنائے عشق ہے
خیرالبشر کی ذات کے انوار کا صدقہ
آغاز و ابتدا ہے یہ بِنائے عشق ہے
محبوب کے جلوے میں اپنی ذات سمو کے
عاشق بنے محبوب تقاضائے عشق ہے
عظمٰی کمالِ عشق کے خوگر کو چاہئیے
کرے خود پہ آشکار کیا بقائے عشق ہے