کمال عشق میں سوز نہاں باقی نہیں رہتا
Poet: عارف نقشبندی By: مصدق رفیق, Karachiکمال عشق میں سوز نہاں باقی نہیں رہتا
بھڑک جاتے ہیں جب شعلے دھواں باقی نہیں رہتا
جبیں تو پھر جبیں ہے آستاں باقی نہیں رہتا
جہاں تم ہو کسی کا بھی نشاں باقی نہیں رہتا
تمہیں دیکھوں تو کیا دیکھوں تمہیں سمجھوں کو کیا سمجھوں
محبت میں تو اپنا بھی گماں باقی نہیں رہتا
انہیں سے پوچھئے یہ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے
بہاروں میں بھی جن کا آشیاں باقی نہیں رہتا
کبھی یاد ان کی آئی ہے کبھی وہ خود بھی آتے ہیں
محبت میں حجاب درمیاں باقی نہیں رہتا
محبت راس آتی ہے تو چھا جاتی ہے دنیا پر
بگڑتی ہے تو پھر نام و نشاں باقی نہیں رہتا
خزاں میں لالہ و گل کا بھرم بھی کھل ہی جاتا ہے
ہمیشہ تو فریب گلستاں باقی نہیں رہتا
اسی منزل میں آتے ہیں کہیں دیر و حرم عارفؔ
حریم دل سے بچ کر آستاں باقی نہیں رہتا
More Sad Poetry






