کسی کا یوں سہارا مل گیا ہے
کہ جیسے پھر کنارا مل گیا ہے
کرم کا پھر اشارا مل گیا ہے
اسے جب بھی پکارا ، مل گیا ہے
سلگتا سا شرارا مل گیا ہے
جو حصہ تھا ہمارا ، مل گیا ہے
اسی سے چین اب حاصل ہوا ہے
وہی آنکھوں کا تارا مل گیا ہے
نہ ڈوبے گا سفینہ یہ بھنور میں
سہارا جا تمھارا مل گیا ہے
کہیں پنہاں نظر سے اس کو دیکھا
کہیں وہ آشکارا مل گیا ہے
خدا نے کر دیا باہم سبھی کو
بالآخر جیتا ، ہارا مل گیا ہے
کوئی جگنو سا چمکا ہو وفا کا
انھیں دل پھر ہمارا مل گیا ہے
بٹا ہے جو غم الفت جہاں میں
ہمیں سارے کا سارا مل گیا ہے
نہیں جچتا اسے رومی ! منافع
جسے ایسا خسارا مل گیا ہے