کوئی بھی یہاں سچا مسلمان نہیں ہے
انسان بھی اس دؤر کا انسان نہیں ہے
ہر دل میں جو ہے بغض و عداوت کا بسیرا
کامل یوں کسی شخص کا ایمان نہیں ہے
یا تو یہ فلک پھاڑ کے آتے ہیں درندے
یا پھر کسی سرحد پہ ہی دربان نہیں ہے
بس میرے اثاثوں میں کمی کوئی نہ آۓ
انسان کا مرنا کوئی نقصان نہیں ہے
کر دیتا ہے گمراہ یہ اوقات سے بڑھنا
افسوس کسی انس کو یہ دھیان نہیں ہے
تو مجھ سے بچھڑ جاۓ تو مر جاؤں گا کیونکر
تو میری محبت ہے مری جان نہیں ہے
ہر موڑ پہ جو مجھ کو نۓ زخم ملے ہیں
یوں مجھ کو رہی اپنوں کی پہچان نہیں ہے
دشمن کے محلے میں یوں پھرنا نہیں اچھا
بیشک تو یہاں بےسر و سامان نہیں ہے
بہتر ہے کہ باقرؔ تو کبھی جاں سے گزر جا
اب دور تلک وصل کا امکان نہیں ہے