کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزّت کم نہیں ہوتی
یہ وہ دولت ہے جو دل کی بدولت کم نہیں ہوتی
محّبت کرتے رہنے سے محّبت کم نہیں ہوتی
محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی
جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کہ رہتی ہیں
کبھی اُنگلی چبانے سے اذّیت کم نہیں ہوتی
نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی