ہم سے مرض اب اپنا بتایا نہ جائے گا
کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا
طوفان کو بتادو چلے دیکھ بھال کر
میرا مکاں اب اس سے گرایا نہ جائے گا
مرنے کے بعد بھی میں تو اک بوجھ ہی رہا
لاشہ مرا یہ تم سے اٹھایا نہ جائے گا
سب کچھ ہی ہم کہیں گے سرِ عام اب یہاں
اب تم سے اپنا چہرہ چھپایا نہ جائے گا
اِس کو لکھا ہے اپنے لہو کی دوات سے
یہ نام میرے دل سے مٹایا نہ جائے گا
ہم نے جلایا ہے جو محبت کا اک دَیا
طوفان سے بھی اب یہ بجھایا نہ جائے گا
چپ ہی رہو اب ارشیؔ یہ محفل انہیں کی ہے
تم سے تو اب یہ قصّہ سنایا نہ جائے گا
ایسا لگا ہے زخم دکھایا نہ جائے گا
اس بے وفا کا چہرہ بھلایا نہ جائے گا
لکھا ہوا ہے ساقی نے اپنی دکان پر
کم ظرف کو یاں جام پلایا نہ جائے گا
بیٹھے ہوئے ہیں غیر کے پہلو میں اس طرح
نظروں کو ان سے اب تو ملایا نہ جائے گا
کچھ ہم ہی جانتے ہیں جو ہم پر گذر گئی
حالِ دن اپنا ہم سے سنایا نہ جائے گا
ہم تو مریضِ عشق ہیں دے دیں گے جان بھی
کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا
کب تک رہو گے چپ ذرا تم غور تو کرو
ہم سے تو یہ وطن یوں لٹایا نہ جائے گا
ارشیؔ ذرا اٹھو چلو اب ہم ہی کچھ کریں
ان سے وطن کا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا