نہ سکون دل کا لٹتا ، نہ فنا قرار ہوتا
جو ترے جمال رخ پر نہ یہ دل نثار ہوتا
کبھی راز دل نہ محفل میں یوں آشکار ہوتا
تو جہان میں ستم گر ! جو وفا شعار ہوتا
مرا دل غم و الم سے جو نہ داغدار ہوتا
یہ حیات کا چمن بھی نہ یوں پر بہار ہوتا
جو قدم قدم پہ ملتا ، مجھے بے غرض جہاں میں
یہی آرزو تھی ایسا کوئی غمگسار ہوتا
مری بات جو کہ سنتا ، مری بات مانتا جو
مرے جذبہ وفا کا جسے اعتبار ہوتا
مرے سامنے عدو سے سر بزم گفتگو ہے
نہ ٹھہرتا اس جگہ پر، اگر اختیار ہوتا
مری بیکسی نے دن یہ مجھے آج ہیں دکھائے
کوئی اپنا ملتا مجھ کو تو میں با وقار ہوتا
یہ تڑپ ہمیشہ رہتی ، یہ کسک ہمیشہ ہوتی
ترے ساتھ ربط دل کا جو نہ پائدار ہوتا
کبھی تشنگی نہ رومی کو جہان میں یوں ہوتی
ترے میکدے کا ساقی ! جو یہ بادہ خوار ہوتا