تم نے ہمارے درد کو محسوس کیا کیسے
میری پریشانی کا اندازہ تم کو ہوا کیسے
تمہارے بن ہماری زندگی تو ہو گئی ایسے
جینے کے نام پہ کوئی فنا ہو جائے جیسے
تمہاری چاہ میں ہم خود سے بھی جدا ہو گئے
میرے ہمراز کبھی تو بھی مجھے چاہ ایسے
آنکھوں سے آنسو بہہ گئے جب ہم نے یہ سوچا
چاہا تھا ہم نے کس کو اور پالیا کیسے
زلفوں کے سائے میں دمکتا اک حسیں چہرہ
گھرے ہوئے بادلوں کے درمیاں ماہتاب جیسے
وہ میرے روبرو ایسے اچانک آگئے ہیں
میں ان کا آئینہ وہ میرا آئینہ جیسے
تیرے وجود کی خوشبو نے یوں نہال کیا
دشت و صحرا میں برسات ہوئی ہو جیسے
تم سے ملا تو بیقرار دل کو یہ لگا
کوئی تپتا صحرا سیراب ہوا ہو جیسے