ذکر کیسا اس آشنائی کا
وہ تو قصہ ہے بے وفائی کا
کوئی منزل نہیں نہ شوق سفر
غم بھلا کیوں ہو نارسائی کا
ہم کہ ٹھہرے تری نظر میں برے
مل گیا یوں صلہ بھلائی کا
غم سے آزاد ہو نہیں پاتے
شوق کس کو نہیں رہائی کا
اپنی ہی ذات کے پجاری ہیں
جن کو دعوا ہے پارسائی کا
تجھ سے دوری کا رنج ہے مجھ کو
غم تجھے بھی تو ہے جدائی کا
بات کچھ بھی نہیں مگر زاہد
بن گیا ہے پہاڑ رائی کا