کوئے وقتِ ندامت سے بہت ڈرتا ہے
دل اب ایسی ملامت سے بہت ڈرتا ہے
جس راہ میں بکھر جائے ایمانِ سلیم
دل اب ایسی مسافت سے بہت ڈرتا ہے
یہ جو علماء ہیں دراصل یہ ہیں علمائے سو
دل اب ایسی رقابت سے بہت ڈرتا ہے
گمراہی میں الجھ جاؤں میں جسے پڑھ کر
دل اب ایسی بابت سے بہت ڈرتا ہے
وہ جو جھٹلاتی ہے خالق کی ہر اِک نعمت کو
دل اب ایسی شکایت سے بہت ڈرتا ہے
تسبیح ہاتھوں پر گھومانا صرف بہشت کیلئے
دل اب ایسی حماقت سے بہت ڈرتا ہے
یہ اجتماعی دیکھاوا جو کر رہے ہیں لوگ
دل اب ایسی عبادت سے بہت ڈرتا ہے
وہ جو کہتا ہے میں قادر ہوں ہر شے پر حُسینؔ
دل اب ایسی طاقت سے بہت ڈرتا ہے