کوتاہیاں تو سارے جہاں کی پکڑ سکا
لیکن وہ اپنے گھر کی نہ چوری پکڑ سکا
بازو کٹے تو پھر نہ مرا جنگ جو کبھی
میدانِ کارزار میں برچھی پکڑ سکا
بچے اداس بیٹھے ہیں جالوں کے سامنے
پھر آج ماہی گیر نہ مچھلی پکڑ سکا
ظالم مہاجنوں نے کھڑی فصل بیچ دی
دہقان ہاتھ میں نہ درانتی پکڑ سکا
ماں باپ میرے ہوں گے پریشاں بہت رفیق
گر میں نہ آج شام کی گاڑی پکڑ سکا