دنیا کو قید کر کے خد آزاد پھر رہا
لوگو کو گھروں میں کیا ہوا کچھ نہ پوچھئے
کیا دیکھتا ہوں سناٹا تھا چھایا جیسے
ویراں تھی گلیاں کوچے کچھ نہ پوچھئے
چھینی ہیں کس نےدوستو شہروں کی رونقیں
آئی کہاں سے یہ موجِ بلا کچھ نہ پوچھئے
سب کاروبار بند ہیں سب روزگار بند
سارا غرور خاک ہوا کچھ نہ پوچھئے
راتوں کی نیند ، دن کا سکوں چھن گیا تمام
کس نے یہ سب کا حال کیا کچھ نہ پوچھئے
اندر اندر سے کھاگئی یہ معیشت دنیا کی
پھر کیسے سنبھلے گی دنیا کچھ نہ پوچھئے
ڈاکٹرو نے دن اور رات کو ایک کر دیا
پھر کتنے مریض صحتیاب ہوئے کچھ نہ پوچھئے
سائنس کو بھی کورونا نے بیکار کر دیا
رات و رات کتنی چالیں بدلا کچھ نہ پوچھئے
درحقیقت یہ کچھ اور ہی تھا جو دنیا کھا بیٹھا
دیکھتے ہی دیکھتے کیسے چھایا کچھ نہ پوچھئے
وہ کون سا ہے جرم کہ جس کا ہے یہ صلہ
ہر گھر ہے قید خانہ بنا کچھ نہ پوچھئے
نفرت کی آگ کھا گئی کتنی ہی بستیاں
پھر میڈیا کی چلی جو ہوا کچھ نہ پوچھئے
لوگوں نے جب پہنائی اسے مزہب کی زنجیر
میڈیا نے پھر کیسا چرچا کیا کچھ نہ پوچھئے
سائنس نے اسے توڈنے کو کیا کچھ نا کیا
پھر ویکسین کیسے نہ بنی کچھ نہ پوچھئے
بظاہر اک مرض ہے یہ کورونا وائرس عمر
ہر اک چہرے پہ وحشت ہے کچھ نہ پوچھئے