زندگی کی الجھنوں سے یہاں بچ سکا ہے کون
دکھ سکھ کے موسموں سے یہاں نکل سکا ہے کون
ہنستے ہیں مسکراتے ہیں بظاہر ہمارے سامنے
آنکھوں سے اشک گرنے سے یہاں روک سکا ہے کون
نفسانی خواہشوں میں یہاں پهنس چکے ہیں ہم
خواہشوں کے اس دلدل سے یہاں نکل سکا ہے کون
جو مقدر میں لکھا ہے وہی ہمارا نصیب ہے یاروں
زیاده حاصل اپنے مقدر سے یہاں کرسکا ہے کون
بھاگ رہا ہے ہر کوئی ایک دوسرے کے پیچھے راہی
اپنی منزل کو اس طرح سے یہاں پا سکا ہے کون