پل میں ہوے وہ یوں پراۓ کل تلک تھے جو اپنے
پوشاک جیسے بدلیں اپنی لوگ رنگ بدلتے اپنے
انسانوں کےجنگل میں دکھ دے کوئ درد سہے کوئی
کھیلیں لوگ یوں اک دوجے کے سنگ کھیل نرالے
آئی نہ پرکھ تجھ کو نہ سیکھے یہ ڈھنگ درخشندے
کوئی ڈھونڈ ایسا پیمانہ جو بتاسکے کون اپنے کون پراۓ