کِسی کی چاپ نہ تھی، چند خُشک پتّے تھے
شجر سے ٹُوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمھیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اِک دوسرے سے بِچھڑے تھے
تُمھارے بعد، چمن پر جب اِک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے
ہم اِک نظر کے گنہگار، کیا خُدا سے کہیں
تمھی کہو، کہ یہ تم تھے جو دل میں اُترے تھے
تمام عُمر وفا کے گناہ گار رہے
یہ اور بات، کہ ہم آدمی تو اچھّے تھے