کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے
شیشہ اٹھا کہ جوئے معانی نکل پڑے
پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر
مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے
مجھ کو ہے موج موج گرہ باندھنے کا شوق
پھر شہر کی طرف نہ روانی نکل پڑے
ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ
آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے
ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر
ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے