لکیریں بولتی ہیں اور زباں ریکھا کی ہوتی ہے
ملیں خوشیاں بہت کم اور پھر ان میں کٹوتی ہے
بتایا بھی کہ لوگوں سے نہ کر ہمدردیاں اتنی
کمر جھکتی چلی جائے جو بوجھ اوروں کا ڈھوتی ہے
گلاب اس کے حسیں رخسار سے رنگت چراتے ہیں
سحر انگیز آنکھوں میں فروزاں کوئی جوتی ہے
بہت بے ساختہ منظر نظر میں گھوم جاتے ہیں
تمہاری یاد پھر آنکھوں کو دھیرے سے بھگوتی ہے
بجھی ہے اس کی آنکھوں میں گئی شاموں کی سفّاکی
مرے دل کی زمیں پر ہجر کے جو بیج بوتی ہے
جنہیں رد کر چکے تھے ہم وہی ہیں راجدھانی پر
جہاں کی تھی یہ کھوتی پھر وہیں پر آ کھلوتی ہے
فرنگی بن کے بیٹھے ہیں، عجب ملبوس ان کے ہیں
بنیں جتنا بھی یہ بابو مگر پہچان دھوتی ہے
کسی مورت کی صورت وہ بسے ہے من کے مندر میں
جو میرے جاگنے پر جاگتی، سونے پہ سوتی ہے
رشیدؔ اک آرزو سینے میں ہے بے چین روحوں سی
مرے کاندھے پہ سر رکھ کر بلکتی ہے، جو روتی ہے