کبھی آنا کبھی جانا ارے مہمان ہی تو ہے
ارے ظالم گلہ نہ کر یہ انسان ہی تو ہے
ٹھہر جانے سے چلتا پانی آلودہ سا رہتا ہے
جو نہ سمجھے ذرا سی بات وہ نادان ہی تو ہے
اے میرے منظر میرا ٹھکانہ مستقل نہیں
کبھی زمیں کبھی فلک میرا مکان ہی تو ہے
اے سرزمیں پاک وطن میرے ساتھ میں
جو تجھ پہ فدا ہو سکے یہ جان ہی تو ہے
میں بھی سکون میں میرا دل بھی سکون میں
کہ یہ روح کا اضطراب اطمینان ہی تو ہے
اس جہاں کی نعمتیں آدم کے واسطے
اور وہ بہشت تابہ آسمان ہی تو ہے
وہ خالق کون ومکاں وہ مالک دونوں جہاں
مختار زمیں آسماں ‘رحمٰن‘ ہی تو ہے
جب وہ ہمارے ساتھ ہے کیا خوف کیسا رنج
کیا زندگی کیا موت سب آسان ہی تو ہے
عظمٰی جو مجھے تقویت دیتا ہے دم بدم
کچھ اور نہیں بس میرا ایمان ہی تو ہے