کچھ اپنی زند گی پہ بھی مجھ کو ملال ہے
کچھ ان غم ہے جینا بھی جن کو محال ہے
آئے گا کیسے ملک میں کوئی بھی انقلاب
مفلس عوام مست ہیں جیسا بھی حال ہے
اوروں کے واسطے تو بچھاتا رہا سدا
خود جس میں قید ہو گیا تیرا ہی جال ہے
ان شاعرانہ باتوں سے جیتوں میں کیسے دل
لوگوں کو تو عزیز تر دنیا کا مال ہے
اب زندگی میں الجھنیں لاکھوں سہی مگر
آتا تو مجھ کو آج بھی تیرا خیال ہے
ملزم کو ہر سزا سے وہ آخر بچا گیا
اپنی دلیل پر اسے حاصل کمال ہے
آپس میں لڑ رہیں ہیں یوں مدت سے ہم یہاں
کچھ تو سمجھ اے دوست یہ دشمن کی چال ہے
شہرت و علم و حسن و دولت پہ ناز کیوں
زاہد ہر اک عروج کو آخر زوال ہے