کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں
نشہ خواب گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرم سفر
ہر قدم سنگ نشاں تھا پہلے
سفر شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قید مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس مین اندیشہ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوئے پھرتے تھے
دل عجب کنج اماں تھا پہلے
اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اس طرف چشمہ رواں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
اڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو اک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ہم نے آباد کیا ملک سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبور فغاں تھا پہلے
ہم نے ایجاد کیا تیشہ عشق
شعلہ پتھر میں نہاں تھا پہلے
ہم نے روشن کیا معمورہ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے
ہم نے محفوظ کیا حسن بہار
عطر گل صرف خزاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے