کچھ زندگی میں ٹھرے سلسلے نہیں چلتے
زمانہ بدل بھی جائے حالات نہیں بدلتے
جہاں ہر روز یوں گلشن اجڑتے ہوں
بہاریں نہیں آتیں وہاں پھول نہیں کھلتے
ہماری آنکھیں یوں حوادث کی عادی ہو گئیں
کہ نم نہیں ہوتیں اب اشک نہیں بہتے
میں حال کیا سناؤں اتنی گھٹن ہے فضا میں
کہ سانس نہیں آتی اور سکوں کو ہیں ترستے
اتنے ظلم دیکھ کر ہم یوں پتھر ہو لیے
زباں نہیں ہلتی ہمارے لب نہیں کھلتے